ریمہ ذات کی تاریخ

اسلام و علیکم! امید کرتا ہوں کہ تمام دوست احباب بخیروعافیت سے ہوں گے۔ اس مضمون میں آپ کو ریمہ ذات کی تاریخ کے بارے میں اہم معلومات ملیں گی۔ ہم نے جب شوشل میڈیا یا کتابوں میں ریمہ ذات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو ہمیں اس کا ذکر کہیں نہیں ملا کیونکہ کسی نے بھی اس کی تشہیر نہیں کی اور نہ اس کی آگاہی کسی کو دی۔ اس وجہ سے، آج کے جدید دور میں ریمہ ذات کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے یہ قوم احساس کمتری کا شکار ہے اور لوگ اسے ایک نچلے درجے کی ذات تصور کرتے ہیں۔

ریمہ ذات کی تاریخ

ریمہ ذات کا شجرہ نسب

ریمہ ذات کا شجرہ نسب حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ملتا ہے، جنہیں ہمارے پیارے نبی، خاتم النبیاء، سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ریمہ ذات دراصل ایک بزرگ رحیم بخش کے نام سے منسوب ہے، لیکن اس وقت کے سادہ لوح لوگ سیدھا نام پکارنے کی بجائے عرفی نام کو ترجیح دیتے تھے، جس کی وجہ سے رحیم بخش کا نام رحیمہ یا ریمہ پکارا جاتا رہا اور یہ ذات بھی اسی نام (ریمہ) سے جانی پہچانی جاتی ہے۔

ریمہ اور للہ جٹ کا تعلق

ریمہ ذات کے شجرے میں دو ناموں کا ذکر ملتا ہے: رحیم بخش اور لال بخش، جو آپس میں بھائی تھے۔ ان کی جائے پیدائش جہلم یا پنڈ دادنخان بتائی جاتی ہے اور ان کا پیشہ کاشتکاری تھا۔ دونوں بھائیوں کا کافی وسیع رقبہ بھی تھا۔ ایک واقعے کے دوران، رحیم بخش نے دریاۓ چناب کے قریب قیام کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ لال بخش واپس اپنے علاقے پنڈ دادنخان چلا گیا۔ اس جدائی کے بعد، رحیم بخش اور لال بخش کے نام سے دو ذاتیں وجود میں آئیں: ریمہ اور للہ جٹ۔

پیشہ ورانہ شناخت

رحیم بخش کے سسرال والے کھڈی اور کپڑا بنانے کا کام جانتے تھے، جسے رحیم بخش نے بھی اپنا لیا۔ چونکہ کھڈی یا کپڑا بننا حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا بھی پیشہ تھا، اس لئے رحیم بخش کی نسل ریمہ انصاری کہلائی جانے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ، ریمہ نسل کے لوگ مختلف جگہوں پر آباد ہوتے گئے اور مختلف پیشے اختیار کرتے رہے۔

ریمہ ذات کی موجودہ صورتحال

آج کے دور میں، ریمہ نسل کے لوگ مختلف جگہوں پر مختلف ذاتوں سے پہچانے جاتے ہیں، جیسے ریمہ انصاری، ریمہ بھٹی، ریمہ جوپی، ریمہ راجپوت، اور رحیمہ انصاری وغیرہ۔ ریمہ ذات کے لوگ زیادہ تر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں، جیسے جھنگ، شورکوٹ، ملتان، لیہ، خانیوال، چنیوٹ، بھوانہ، فیصل آباد، ساہیوال، اور اوکاڑہ میں رہائش پذیر ہیں۔

ریمہ ذات کے بزرگ

ریمہ ذات کی نسل میں ایک اللہ کے نیک بزرگ بھی گزرے ہیں، جن کا نام بابا فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ ریمہ ذات کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جھنگ کے علاقے سے پیدل سفر کر کے ملتان کے علاقے میں دربار حقانی شریف رحمۃ اللہ علیہ کے اولیاء سے فیض حاصل کرنے جاتے تھے۔ ان کی اس سعادت مندی کو دیکھ کر حقانی شریف کے ولی نے ریمہ ذات کے لوگوں کی طرف اپنے ایک بزرگ پیر تاج دین رحمۃ اللہ علیہ کو بھیجا تاکہ وہ ان کے پاس رہ کر ان کو فیض یاب کریں۔

پیر تاج محمود اور بابا فتح محمد کے مزار

پیر تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ اور بابا فتح محمد نے ملتان شریف سے ہجرت کر کے جھنگ کے علاقے چنڈبھروانہ کے ریلوے اسٹیشن کے قریب اپنا ٹھکانہ لگایا۔ آج بھی ان کا مزار ریلوے اسٹیشن کے قریب موجود ہے اور لوگ دور دور سے فاتحہ خوانی کرنے کے لئے آتے ہیں۔

اختتام

اس تحریر کا مقصد ریمہ ذات کی تاریخ کو سامنے لانا ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہو سکیں اور اپنی ذات کے بارے میں فخر محسوس کریں۔ ریمہ ذات کے لوگ اپنی تاریخ پر نازاں ہیں اور امید ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اپنی شناخت کو برقرار رکھیں گے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *